تسبیح کا پودا
تب میری پوسٹینگ گلگت میں تھی، دوسال پہلے کی بات ہے، سکارکوئی گلگت میں تین کنال پر زعفران بلب پروڈکشن ٹرائل کے لئے مجھے کسی سے پرائیویٹ زمین لیز پر لینی تھی، اس دوران ایک گجر چوہدری صاحب سے وہیں ملاقات ہوئی، بڑے ہنس مکھ کھلے ڈلے انسان تھے۔ ہم مزدوروں سے زعفران کے بلب لگوارہے تھے، آپ نے چائے کے لئے مدعو کیا ، ساتھ ہی واقع گھر میں سادہ سی دعوت چائے سجائی، جسمیں چائے کے ساتھ ابلے آلو جو انہوں نے اپنے نلتر والی زمین سے لایا تھا، پیش کیا۔چائے کے علاوہ پرخلوص برتاؤ نے چوہدری صاحب کا چہرہ ہمارے لئے خلوص کا استعارہ بنا دیا، اسی دوستانہ ماحول میں وہ گویا ہوئے کہ یہ جو سامنے پودا نظر آرہا ہے آپکو؟
میں نے کہا جی ہاں۔۔ بولے مجھے اسکے بیج کسی افریقی ملک سے کسی دوست نے بھیجا ہے، اس سے اصلی تسبیح بنتے ہیں، اور جیب سے ایک عدد تسبیح بھی بر آمد کی۔ میں حیران ہوکر دیکھ رہا تھا، میں نے پوچھا اسمیں سوراخ کیسے کئے؟ کہنے لگا ہر دانے میں قدرت نے سوراخ کیا ہوا ہے۔سوراخ میں جو پھانک سی ہے اسے نکال لیا جائے تو بیج اگتا نہیں، میں نے اللہ کی صناعی پر دل کھول کر سبحان اللہ پڑھا اور چوہدری صاحب سے وہ بیج لیکر آیا کچھ عرصے بعد وہ بیج سکردو محکمہ زراعت کے ٹنل میں لگادی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے خیال آیا تو میری خوشی دو چند ہوگئی، یہ پودے بڑے ہوکر دانے بھی بن گئے تھے۔ عرصہ گزر گیا آج اسلام آباد نرسری والوں کی پوسٹ نظر سے گزری تو سوچا اس مفید پودے کے بارے میں عام لوگوں کو کچھ معلومات بہم پہنچاوں۔
اسے انگریزی میں جابز ٹیر jab's tear کہتے ہیں۔ چائنا والے yi yi اور ہندی میں کرلو کہتے ہیں۔ اسکا آبائی وطن چین، ہندوستان، پاکستان ہے، یہ اونچائی پر جہاں چاول نہیں اگتے وہاں پیداوار دیتی ہے، قدیم لوگ چاول کے طور پر کھاتے بھی تھے، اسے ادویاتی خصوصیات کی بنا پر جدید محققین نے کافی اہمیت دی ہوئی ہے۔ قینوا کی طرح اسے بھی سپر فوڈ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔اسمیں موجود فائبر کی وجہ سے قولوں کی صفائی اور بیڈ کولیسٹرول LDLکے خاتمے میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔خوارک میں بلتستان کے کنگنی کی طرح بلے ( دیسی سوپ) بنایا جائے تو بے حد پر لطف ہونے کے علاؤہ دیگر صحت افزا اجزا جسم کا حصہ بن سکتے ہیں۔شوگر کے مریضوں کے لئے مفید خیال کیا جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکے آدھے کپ سے چھے گرام پروٹین حاصل ہوگی جو سبزی خوروں کے لئے اچھی پروٹین کا ذریعہ ہے۔ اسکے کاشت اور غذائیت پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
تحریر جی ایم ثاقب سکردو، 4-01-2019
No comments:
Post a Comment